ففتھ جنریش وار کا یہی ہدف ہے کہ ہم اپنی ماں دھرتی اور اُس کے غیور محافظ سپوتوں کے دشمن بن جائیں،اُن کے خلاف منفی بیان بازی کریں،اشتعال انگیزی پھیلائیں،ملکی املاک کو نقصان پہنچائیں،دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کے بجائے اُلٹا اپنی ہی فوج کو ہدفِ تنقید بنائیں جو حقیقت میں ہماری،آپ کی محافظ ہے۔ اسی فوج کی وجہ سے ہمارا ملک محفوظ ہے اور ملک محفوظ ہے تو ہم بھی محفوظ ہیں۔ اپنی فوج کو کمزور کرنا اپنے ہی پیروں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے۔ جو ناہنجار وقتی اشتعال انگیزی میں ریاست اور فوج کے خلاف نفرت انگیزی کرتے اور گز گز بھر زبانیں نکال کر ہفوات بَکتے ہیں وہ دشمن کے آلہ کار اور ففتھ جنریش وارمیں دشمن کے حامی ومددگار ہیں۔
ماضی کے آئینے میں حال کی تصویر د یکھ!
اٹھاسی برس عیسائیوں کے قبضے میں رہنے کے بعد بیت المقدس بغیر کسی قتال اور خوں ریزی کے دوبارہ مسلمانوں نے حاصل کرلیاتھا ۔بیت المقدس کی فتح کے بعد بھی سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا ،یہاں تک کہ طرابلس اور انطاکیہ کے تمام علاقوں کو فتح کرکے اپنے زیرِ نگیں کرلیا۔جب سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی ان فتوحات اور بیت المقدس کے صلیبیوں کے قبضے سے نکلنے کی خبریں یورپ پہنچیں تو سارے یورپ میں تہلکہ مچ گیا ۔بیت المقدس کی فتح صلیبیوں کے لیے پیغامِ اجل سے کم نہ تھی۔
اس فتح کی خبر پر سارے یورپ میں تہلکہ اور کہرام مچ گیا۔ القدس کا لاٹ پادری ولیم صوری راہبوں،مذہبی پیشواؤں اور امرا کے ایک وفد کے ہمراہ سیاہ ماتمی لباس میں ملبوس سلطنتِ روماپہنچااور پاپائے اعظم کی سر پرستی میں پورے یورپ کا دورہ کیا۔ وہ مسلمانوں کے مظالم کے فرضی افسانے سُناسُناکر یورپ کو ایک دہکتے آتش فشاں میں تبدیل کرنا چاہتا تھا۔اس وقت نہ صرف شاعر اور گویّے دردناک نغموں کے ذریعے عوام کے جذبات کو بھڑکارہے تھے ،بلکہ مصور بھی اپنے فن کو کمال پر کاری کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اندھی نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ پادری ؛ان مصوروں کے ذریعے ایسی فرضی تصاویر بنواتے تھے، جن میں ایک عربی شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے لڑتے دکھایا جاتا تھا۔ بعض تصاویر میں یہ منظر پیش کیا جاتا تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام اِس عربی شخص کے ہاتھوں بری طرح پٹ رہے ہیں، ان کے بدن سے خون جاری ہے اور وہ زمین پر گر چکے ہیں۔ لوگ یہ دہشت ناک تصاویر دیکھ کر حیران ہوتے اور پوچھتے توپادری انھیں بتاتے کہ یہ (نعوذُباللہ!)عرب کا نبی ہے، جوہمارے مسیح کو مار رہا ہے، یہ اس کے ہاتھوں مر گیاہے۔یہ سن کر لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگتے۔
اس قسم کی ڈرامے بازیوں میں صور کا حاکم کونرڈ مارکوئیس پیش پیش تھا۔ اس نے یورپ میںاشتعال انگیزی کو ہوا دینے لیے ایک نیا حربہ آزمایا۔ دنیائے نصرانیت کے لیے القدس کا کلیسائے قمامہ(چرچ سینٹ جان )عقیدتوں کا مرکز ہے،اس چرچ میں ایک فرضی قبر ہے ،جسے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر تصور کرتے ہیں، ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوسولی دینے کے بعدیہیں دفن کیا گیا تھا۔مارکوئیس نے یورپ کے سادہ لوح عوام کو مشتعل کرنے کے لیے ایک بہت بڑی تصویر بنوائی،جس میں ایک مسلم گھڑسوار کو قبر پر چڑھتے، اُسے گھوڑوں کے سموں سے پامال کرتے اورگھوڑے کوقبر پر پیشاب کرتے دکھایا گیا۔ یہ دیوہیکل تصویر یورپ کے کونے کونے میں گھمائی گئی اور بڑے عوامی اجتماعات میں بھی دکھائی گئی۔ اس قسم کی فرضی تصاویرنے عیسائیوں کو مزید جوش دلادیا۔(نظریاتی جنگ کے محاذ،صفحہ 71)
غرضیکہ پادری گرجوں سے باہر نکل آئے اور شہر شہرجاکراسلام کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے عوام وخواص کو تیسری صلیبی جنگ کے لیے تیار کرنے میں مصروف ہوگئے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تھوڑے ہی عرصے میںعیسائی اِن شکستوں کے صدمے سے باہر نکل آئے اور تیسری صلیبی جنگ کے لیے تیار ہوگئے ۔اس مذہبی ترغیب کے نتیجے میں انگلستان کے بادشاہ رچرڈ ،فرانس کے شاہ فلپ آئسٹس او جرمنی کے شہنشاہ فریڈرک بار بروسانے مالی اخراجات ادا کرنے کی ہامی بھرلی۔ اس طرح تیسری صلیبی جنگ کا آغاز ہوا۔ اِس جنگ میں سارا یورپ شریک تھا۔ شاہ جرمنی فریڈرک باربروسا، شاہ فرانس فلپ آگسٹس اور شاہ انگلستان رچرڈ شیر دل نے بہ نفس نفیس ان جنگوں میں شرکت کی۔ پادریوں اور راہبوں نے قریہ قریہ گھوم کر مسیحیوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارا۔جتنی فوج اس جنگ میں شریک تھی ،مؤرخین کہتے ہیں کہ مسیحی دنیا نے اس قدر لاتعداد فوج کبھی فراہم نہ کی تھی۔ یہ عظیم الشان لشکر یورپ سے روانہ ہوا اور عکہ کی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا ۔ سلطان صلاح الدینؒ نے تن تنہا عکہ کی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لیے تھے، لیکن صلیبیوں کو یورپ سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی۔ ایک معرکے میں دس ہزار مسیحی قتل ہوئے، مگر صلیبیوں نے محاصرہ جاری رکھا ،لیکن چونکہ کسی اور اسلامی ملک نے سلطانؒ کی طرف دست تعاون نہ بڑھایا، اس لیے صلیبی ناکہ بندی کی وجہ سے اہلِ شہر اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کا تعلق ٹوٹ گیا اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ باوجود پوری کوشش کے مسلمانوں کو کمک نہ پہنچا سکے۔ تنگ آکر اہلِ شہر نے امان کے وعدے پر شہر کو مسیحیوں کے حوالے کر دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ فریقین کے درمیان معاہدہ طے ہوا جس کے مطابق :مسلمانوں نے دو لاکھ اشرفیاں بطورِ تاوان ِجنگ ادا کرنے کا وعدہ کیا اور صلیبِ اعظم اور پانچ سو مسیحی قیدیوں کی واپسی کی شرائط قبول کرتے ہوئے مسلمانوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اگرچہ مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی تھی کہ وہ تمام مال و اسباب لے کر شہر سے نکل جائیں؛ لیکن رچرڈ نے بدعہدی کی اور محصورین کو قتل کر دیا۔اس صلیبی جنگ میں سوائے عکہ شہر کے، مسیحیوں کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔
عکہ کے بعد صلیبیوں نے فلسطین کی بندرگاہ عسقلان کا رخ کیا۔ عسقلان پہنچنے تک مسیحیوں کا سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے ساتھ گیارہ بارہ بار مقابلہ ہوا ۔ان میںسب سے اہم معرکہ ارسوف کا تھا۔ سلطانؒ نے جواں مردی اور بہادری کی درخشندہ مثالیں قائم کیں، لیکن چونکہ کسی بھی مسلمان حکومت بالخصوص خلیفۂ بغداد کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی، لہٰذا سلطان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ واپسی پر سلطان نے عسقلان کا شہر خود ہی تباہ کر دیا،چنانچہ جب صلیبی وہاں پہنچے تو انھیں اینٹوں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔
اس دوران میں سلطانؒ نے بیت المقدس کی حفاظت کی تیاریاں مکمل کیں، کیونکہ اب صلیبیوں کا نشانہ بیت المقدس تھا۔ سلطانؒ نے اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ اس قدر عظیم لاؤ لشکر کا بڑی جرأت اور حوصلے سے مقابلہ کیا۔شاہ انگلستان رچرڈ شیر دل سلطانؒ کی فیاضی اور بہادری سے بہت متاثر ہوا۔
باطل کی اندرونی صورتِ حال یہ تھی کہ شاہ جرمنی فریڈرک باربروسا بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مر گیا اور تقریبا چھے لاکھ مسیحی اِن جنگوں میں کام آئے۔فوج میں بددِلی چھارہی تھی ،کیونکہ اس لشکر کو یورپ سے نکلے لگ بھگ تین برس کا عرصہ ہوچکا تھا وطن سے دوری، لاکھوں روپے کے اخراجات، لاکھوںصلیبیوں کا اس جنگ میں لقمۂ اجل بن جانا، موسموںکی سختیاں؛ایک طرف یہ جان پریشانیاں اوردوسری طرف یہ تمام مشق بھی بے فائدہ لگ رہی تھی ،کیونکہ بیت المقدس کی فتح کا کہیں کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔یہ تھی وہ صورتِ حال جس نے صلیبی لشکر کو صلح کی درخواست پرمجبور کیا تھا۔سلطانؒ نے درخواست قبول کی اورفریقین میں معاہدۂ صلح ہوا۔ جس کی رو سے تیسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔ معاہدہ صلح کی شرائط مندرجہ ذیل تھیں:
۱ بیت المقدس بدستور مسلمانوں کے پاس رہے گا۔
۲ ارسوف، حیفا، یافہ اور عکہ کے شہر صلیبیوں کے قبضے میں شمار ہوں گے۔
۳ عسقلان آزاد علاقہ تسلیم کیا جائے گا۔
۴ مسیحی زائرین کوبیت المقدس میں آمدورفت کی اجازت دی جائے گی۔
۵ صلیبِ اعظم بدستور مسلمانوں کے قبضے میں رہے گی ۔
صلح باطل کی چال ثابت ہوئی:
بظاہر باطل کے لشکر جرار کی شکست دیوار پر لکھی ایک ناقابلِ تردیدحقیقت نظر آرہی تھی ،مگر باطل نے بھی پیچھے نہ ہٹنے کا تہیہ کرلیا تھا،شاید باطل یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ حق واہلِ حق کے خلاف فائنل راؤنڈ کھیل رہاہے۔چنانچہ باطل نے پینترا بدلا اور مرتبہ ایک نئی سوچ اور نئی منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں اترپڑا۔ باطل نے اپنی بقا اسی میں سمجھی کہ اس وقت، مجبوری کے تحت ہی سہی، عارضی طور پر جنگ بندی کی کوشش کی جائے۔اس سے ان کامقصد وقت حاصل کرنا تھا،تاکہ آرام سکون کے ساتھ اگلا لائحہ عمل طے کیا جاسکے ۔فوج کے اندر یہ بات پھیلنے لگی اور پھیلتے پھیلتے خواہش کی شکل اختیار کر گئی۔ جب فوج کی یہ خواہش بادشاہوں تک پہنچی تو وہ بھی اس بات کو اپنے حق میں بہتر سمجھتے ہوئے عارضی جنگ بندی پر آمادہ ہوگئے ۔چنانچہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے ساتھ اس سلسلے میں رابطہ کیا گیاتوسلطان نے بھی اس بات کو قبول کرلیا ،یوں دونوں فریقوں کو سوچ بچار کے لیے کچھ وقت مل گیا۔
یہ وقتی جنگ بندی در اصل باطل کے مستقبل کے منصوبوں پر عمل در آمد کی طرف پہلا قدم تھا۔
باطل کی نئی چال:
باطل اس وقت کی تمام صورتِ حال دیکھ اور سمجھ رہا تھا،عارضی جنگ بندی کی صورت میں اسے مزید وقت مل چکاتھا،چنانچہ اس بار اُس نے ابلاغ کو ہتھیار بنانے کا فیصلہ کیااور موقع کی مناسبت سے انتہائی چالاکی،ہوشیاری،عیاری ومکاری کے ساتھ اپنے افواہ سازی کے ہتھیاروں کا استعمال شروع کیا ۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جب بادشاہوں اور ان مصاحبین کے کانوں میںیہ بات پہنچی کہ مسلمانوںپر فتح حاصل کرنے اور ان پر غلبہ پانے کے لیے طاقت کا استعمال ہی کافی نہیں،بلکہ کچھ اور حکمت عملی بھی درکار ہے تو کانوں تک پہنچی ہوئی بات دل میں اتری، پھر دل سے زبان پر آئی۔
عیسائیوں کا گرینڈ جرگہ اور یہودیوں کا مشورہ:
عیسائی بادشاہوں نے آپس کے صلاح مشورے کے بعد ایک گرینڈ جرگہ منعقد کیا ،جس میں عیسائی ممالک کے بادشاہ، اُن کے مصاحبین، فوجی سربراہان اورسیاسی سمجھ بوجھ اورسماجی حیثیت ورسوخ رکھنے والے لوگ شریک تھے، بطورِ مبصر یہودی علمااور ان کے ساتھی بھی اس جرگے میںشامل ہوئے۔
سب نے اپنی اپنی عقل سمجھ کے مطابق بات کی ،رائے اور مشورہ دیا ۔اس دوران یہودی خاموش بیٹھے سب کی باتیں،آرا اور مشورے سنتے رہے، جب سب نے بات کرلی تو ایک معمر یہودی عالم نے یہودیوں کے مستقبل منصوبے کو بطورِمشورہ پیش کیا،اس کی تقریر کا حاصل یہ تھا :
’’اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے اسلام اور مسلمانوں سے لڑتے ہوئے تمھیںچھ سو برس گزر گئے،تم بہت بڑی تعداد میںاس کام کی انجام دہی کے دوران بے وطن ہوئے،تم نے مہمات میں لاکھوں روپے خرچ کیے،اپنے لاکھوں لوگ مروائے، ہرقسم کی تکلیفیں اور مشکلات کا سامنا کیا،غرضیکہ اپنا سب کچھ گنوادیا مگر نتیجہ کیا نکلا؟ اسلام بھی موجود ہے اور مسلمان بھی،بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط !‘‘اس نے کہا:’’میری تجویز یہ ہے کہ اب جنگوں کے سلسلے اور طاقت کے استعمال کو کم کرو اور جنگ اور طاقت کے استعمال پر جو خرچ آتاہے اس کو بچاؤ اور یہ رقم ایسے منصوبوں پر استعمال کرو جس سے وہ مقاصدحاصل کرو، جو جنگ اور طاقت کے ذریعے تم حاصل کرنا چاہتے ہو اور تاحال حاصل نہیں کر پائے؛ یعنی اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ، یا اسلام اور پر مکمل غلبہ۔‘‘اس نے مزید کہا کہ :اس کے لیے ضروری ہے کہ کچھ وقت کے لیے جنگوں ،طاقت کے استعمال ،مسلمانون کی مخالفت کی شدت میں کمی لاتے ہوئے ان کے ساتھ غیر مخالفانہ رویہ اختیار کیا جائے اور دوستانہ ماحول پیدا کیا جائے۔اس سلسلے میں ضروری ہے کہ:
۱ عیسائی،مسلمانوں کے ملکوں اور شہروں میں ان کے ساتھ رہیں۔
۲ ان کے ساتھ اپنے کاروبار اور تجارت کریں۔
۳ کاروباری اور گھریلو تعلقات ان کے ساتھ جوڑیں۔
۴ اپنی جوان،ب صورت کنواری عورتوں کو ان کے گھروں میں داخل کریں ،تاکہ ان کی نسلوں میں عیسائیوں کاخون شامل ہوجائے ۔
اس نے واضح کیا کہ :ان تمام تر کوششوں کا اصل ہدف ہوگا مسلمانوں کے اصل ہتھیاریعنی ایمان اور ایمانی جذبے کو کمزور کرنا۔ جب ان کے دلوں میںموجود یہ جذبہ کمزور پڑے گا تو پھران کی سوچ، فکر، طرزِ عمل؛ سب کچھ خود بخود کمزور پڑ نا شروع ہوجائے گا اورپھریہ، وہ وقت ہوگا کہ ان کو جس طرف چاہو موڑ دو،جس طرح چاہو استعمال کرو۔
معمر یہودی عالم نے کہا کہ :اس منصوبے پر عمل در آمد کے لیے ایک علیحدہ، جامع اور مکمل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جو اس جنگی ماحول میں ممکن نہیں۔اس کے لیے پیسے کے علاوہ ،ماحول وقت، صبر اور طویل انتظار کی ضرورت ہے۔ جہاں چھ سات سو برس جنگ وجدال اور خوں ریزی میں گزرے ہیں ،وہاں عارضی جنگ بندی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر حکمت عملی میں تبدیلی کرکے اس منصوبے پر عمل کیا جائے تو مقصد بآسانی حاصل ہوجائے گا ۔
مستقل جنگ بندی کا فیصلہ:
عیسائی دنیا کے اربابِ حل وعقد پر اس معمر یہودی کا جادو چل گیا اوراس کی تجویز کو اتفاق رائے کے ساتھ منظور کرلیا گیا۔چنانچہ وقتی جنگ بندی کو مکمل جنگ بندی اور صلح کی بات چیت کے لیے شاہ انگلستان رچرڈ کو سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے ساتھ بات چیت کرنے کا اختیار دیا گیا۔ آخر کار سلطان ایوبیؒ اور رچرڈ کے درمیان گفت وشنیدکے نتیجے میں مستقل جنگ بندی اور صلح مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ طے پاگئی:
۱ دونوں فریق پوری کوشش کریں گے کہ آئندہ ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہ کریں۔
۲ دونوں فریقوں کو اپنے اپنے علاقوں میںآنے جانے کی آزادی ہوگی۔
۳ تاجر اور کاروباری لوگ اگر مخالف علاقے میں رہائش اختیار کرنا چاہیں تو ان کو نہ صرف اجازت دی جائے گی ،بلکہ سہولت بھی فراہم کی جائے گی اور ان کو شہری حقوق حاصل ہوں گے،سیاسی سماجی آزادی حاصل ہوگی، ایک دوسرے کے شہروں اور علاقوں سے گزرنے پر رکاوٹ نہیں ہوگی ۔
یوںتین برس سے جاری یہ صلیبی جنگ،حق وباطل کی جنگ کو ایک نیا موڑ اور نیا رُخ دیتی ہوئی اختتام پذیر ہوگئی۔صلیبی اپنے وطن کو واپس ہوگئے اور باطل اپنے نئے اسلام اور مسلمان دشمن منصوبوں کی تکمیل میںمصروفِ عمل ہوگیا۔
مسلمانوں کاطرۂ امتیاز:
ان صلیبی جنگوں کی وجہ سے مادی اعتبار سے اگرچہ اسلامی دنیا ، اسلامی ملکوں اور حکومتوں نے بے شمار نقصانات،شکست وریخت،تباہی وبربادی اور مشکلات کا سامنا کیا، کئی مرتبہ مفتوح ومغلوب ہونا پڑا، مدتوں مجبور اور بے بس بھی رہے، مگر اپنی اسلامی تہذیب وثقافت پر یہودی یا عیسائی تہذیب اور ثقافت کو اثر انداز نہیں ہونے دیا، اپنے دائرۂ حکومت میں قرآن وسنت کے مطابق عمل اور شرعی احکام کی تنفیذ کو ہمیشہ جاری رکھااور اخلاق اور رواداری کو،جو اسلام کا طرۂ امتیا زہے، ہمیشہ اختیار کیے رکھا۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عیسائیوں نے جب بھی بیت المقدس پر قبضہ کیا تو وہاں کی مسلم آبادی کو تہہ تیغ کرکے رکھ دیا۔دوسری طرف :
سب سے پہلے خلیفہ دوم امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں فلسطین فتح ہوا تو غیر مسلموں کے ساتھ ہمدردی ورواداری کا برتاؤ کیا گیا اور کسی بے ضرر شخص،خواتین،بچوں، بوڑھوں اور جانوروں ،درختوں وغیرہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔اسی طرح جب سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے بیت المقدس کو فتح کیا توانھوں نے اسلام کی رواداری کی روایت برقرار رکھی اورغیر مسلموں کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونے دی،بلکہ الٹاجو لوگ دورانِ جنگ قید ہوئے اُن کا فدیہ بھی مسلمان نے اپنی جیب سے ا داکیا۔
یہ تو ایک مثال ہے ورنہ دورِخلافتِ راشدہ ؓ ہو یا بعد والے مسلم سلاطین کے اداور،یہی صورت حال تمام ملکوں اور علاقوں کی فتح وشکست میں دکھائی دیتی ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں نے اپنی تہذیب، اپنی ثقافت، اپنے رسم وراج، اپنی تعلیم، اپنی معاشرت، اپنی معیشت سب کے اندر قرآن وسنت کے احکام کو مقدم رکھا اور اس پر نفسانیت کو غالب نہ ہونے دیا۔یہی مسلمانوں کا طرۂ امتیاز تھا اور اُن کے تفوّق کی ایک اہم وجہ بھی!
ماحول کی اہمیت پر باطل کی نظر:
باطل ماحول کی اہمیت کو دیکھ بھی رہا تھا اور سمجھ بھی رہا تھاکہ ماحول ایک ایسی چیز ہے جو انسانی سوچ کو متاثر کرتی ہے اور انسان کی فطرت لازماً ماحول کے اثرات کو قبول کرتی ہے۔باطل ،مستقبل کے لیے اپنے لائحہ عمل کو اسی نہج پر ترتیب دینے میں مصروفِ عمل ہوچکا تھا اور صلیبی جنگ بندی کا معاہدہ اس منصوبے کی طرف پہلا قدم اورابتدائی کڑی تھی، جس کا مقصود آگے چل کر تمام غیر مسلم قوتوں کو اسلام کے مخالف اور مقابل لا کھڑا کرنا تھا۔ یہ ابتدا تھی مستقبل کی اس متحدہ عالمی مجلس شوریٰ کی اور اسلام کے مقابل ایک متفقہ متحدہ عالمی مذہب کی ،جس سے اسلام اور مسلمانوں کی مذہبی برتری کو ختم کیا جاسکے۔
جنگ کااختتام یا ثقافتی جنگ کاآغاز:
مسلمان سمجھتے تھے کہ صلیبی جنگوں کے خاتمے کے ساتھ ہی حق وباطل کی جنگ اختتام کو پہنچی ،مگرباطل کی سوچ مختلف تھی،وہ بخوبی سمجھتا تھا کہ صلیبی جنگوں کے ختم ہوجانے سے حق وباطل کی یہ جنگ تھمی نہیں، بس اتنا ہوا ہے کہ طریقۂ کار میں تبدیلی کردی گئی ہے۔ اب مسلمان کو نہیںبلکہ مسلمان کے اندر موجود ایمان اور ایمانی جذبے کوختم کرنے کے مرحلے پر کام ہوگا، کہ مسلمان بس سمندر کی جھاگ بن کر رہ جائے۔اقبالؒ کے الفاظ میں باطل کی چاہت تھی کہ
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں کبھی
روح محمد ﷺ اس کے بدن سے نکال دو
خلافتِ عثمانیہ کی ابتدا،مظلوم کا ساتھ دینے کا صلہ :
وقت نے کچھ اور سفر طے کیااور دورِ عثمانی کی ابتدا ہوئی۔جب ہلاکو خان کے زمانے میں منگولوں نے بغداد کو فتح کرلیا تو کچھ عرصے بعد گرد ونواح کے ملکوں اور شہروں کی طرف متوجہ ہوئے اور منگولوں کی ایک کثیرالتعداد فوجی لشکر ایشیائے کوچک کو فتح کرنے کے بعد انقرہ کے قریب پہنچا ،یہاں پر سلجوقوں کی حکومت تھی۔ سلجوق سلطان نے شہر سے باہر نکل کر منگولی فوج کا مقابلہ کیا ،مگر قلیل سلجوقی فوج جلدی پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی۔ عین اسی وقت، جب سلجوقی فوج منگولوں کے زبردست حملوں کی وجہ سے پسپا ہورہی تھی، ایک ترک خانہ بدوش سردار اپنے قبیلے کے لگ بھگ چار سو ساتھیوں کے ساتھ میدان ِجنگ کے قریب سے گزرا اور اس لڑائی کو دیکھنے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے رُک گیا۔ اس نے جب دیکھا کہ ایک لشکر جرارپر مشتمل کثیر التعداد فوج،اپنے سے کئی سو گنا کم تعداد پر مشتمل فوج پر ظلم وزیادتی کر رہی ہے تو اس نے مظلوم کا ساتھ دینے کافیصلہ کیا اور پورے قبیلے کے ساتھ منگول فوج پر حملہ آور ہوگیا ۔جہاں منگول فوج اس اچانک حملے سے گھبراگئی وہاں سلجوقی سلطان اور اس کی فوج اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی مدد سمجھ کر ایک بار پھر منظم ہوئی اورپیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھ کر حملے کرنے لگے اور یوں منگول فوج فتح کی طرف جاتے جاتے اچانک سے شکست کی طرف مڑ گئی،اس کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بھاگ کھڑی ہوئی۔ سلطان نے خانہ بدوش ترک سردار کا نہ صرف شکریہ ادا کیا بلکہ سردار کو ایک جاگیر بھی عطا کی۔اس سلجوقی سلطان کا نام سلطان علاؤ الدین تھا،جب کہ اس ترک خانہ بدوش سردار کا نام ارطغرل بے تھا،جب اس خانہ بدوش ترک سردار ارطغرل بے کا انتقال ہوا تو اس کا بیٹا عثمان خان اس جاگیر کا وارث اور جانشین ہوا ،جس نے خلافتِ عثمانیہ کے نام سے ایک مسلم حکومت کی بنیاد رکھی ۔عثمان خان تقریبا پینتیس، چھتیس برس حکمران رہا ۔اس کی بروقت اور درست پالیسیوں نے اس جاگیر کو ایک سلطنت میں تبدیل کردیا ،جوسلطنت عثمانیہ اور دولت عثمانیہ کہلایہ اور عالم اسلام کی سب سے عظیم سلطنت رہی ،جس کاطویل دورِ اقتدار رہا۔ یہ عالم اسلام کی واحد سلطنت اور بادشاہت تھی، جس نے بر اعظم یورپ میں بے تحاشہ فتوحات حاصل کیں اور آج بھی اس دور کی نشانیاںالبانیہ، مقدونیہ اور افریقہ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
عثمانی دورِخلافت کے آخری ڈیڑھ دو سو برسوں ،میں جہاں عثمانی حکومت آہستہ آہستہ کمزوری کا شکار ہو رہی اور زوال کی طرف بڑھ رہی تھی، وہاں مغربی دنیا بڑی تیزی سے مادی ترقی کی منزلیں طے کر رہی تھی۔ وہاںصنعتی دور کا آغاز ہوچکا تھا اور اس تمام صنعتی انقلاب کے پیچھے زیادہ تریہودی مہاجنوں اور ساہو کاروں کی سرمایہ کاری اور حصہ داری تھی۔
عثمانی دور کے بعد مختلف خاندان اقتدر میں آتے جاتے رہے،یہودیوں کی سرمایہ کاری اور منزل کی طرف پیش رفت میں بھی اضافہ ہوتا رہا؛ مگرایک بات جو باعثِ اطمینان تھی وہ یہ کہ ان تمام ادوار میں مسلمان ثقافت معاشرت اور سماجی اعتبار سے غیر مسلموں کی ثقافتی سماجی اور معاشرتی یلغار سے محفوط رہے، طرزِ حکومت میں بھی بنیادی اصول اور طریقہ اسلامی ہی رہا اور یہ ایک ایسی بات تھی جو باطل کی بے شمار فتوحات کے باوجود مکمل غلبے میں رکاوٹ ثابت ہورہی تھی۔باطل بالخصوص یہود کو نسلی اور مذہبی برتری کو کھوئے ہوئے ہزار برس ہوگئے تھے، عالمِ انسانیت میں اُن کا نہ کوئی گھر تھا نہ ملک؛ ان حالات میں نہ صرف عالمی مذہبی برتری اور عالمی برتری کا خواب تاحال خواب ہی تھا۔ باوجود اس کے کہ مسلمانوں کی مرکزیت ختم ہوچلی تھی اور مسلمان بہت سی خود مختار حکومتوں اور بادشاہتوں میں منقسم اور بکھرے ہوئے تھے، مگر اپنی اسلامی روایات کو قائم رکھے ہوئے تھے اور ان پر فخر بھی کرتے تھے،یوں تمام تر ادبار کے باوجود مسلمانوں کا اپنا تشخص قائم تھا،مسلم اور غیر مسلم کا فرق واضح تھا ؛اور باطل کی ساری توجہ محنت جدوجہد اسی ایک نقطے پر مرکوز تھی کہ یہ واضح فرق ختم کیاجائے ،باطل جانتا تھا کہ جب تک یہ فرق ختم نہیں ہوگا، جب تک سب ایک نہیں ہوں گے برتری کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہونا ممکن نہیں۔ باطل اپنی اسی سوچ وفکر اور مقصد کے ساتھ حق کا ہم سفر بنا چلا آرہا تھا۔
باطل کا جانب ِ منزل سفر :
وقت کا پہیہ چلتا رہا، حکومتیں بھی چلتی اور بدلتی رہیں، حکمران آتے رہے اور حق وباطل کی جنگ میںاپنا اپنا کردار ادا کرکے رخصت ہوتے رہے۔باطل بھی اپنے مستقبل کے منصوبے یعنی عالمی قبضہ، عالمی برتری اور عالمی اقتدار پر وقت اور حالات کے مطابق تبدیلیاں کرتا ، حالات اور صورت حال کا رخ اپنی طرف موڑنے اور منصوبے کی کامیابی کے حصول کی کوشش کرتاہوا ساتھ ساتھ ہم سفر رہا اور مغرب میںاپنی اسلام اور مسلمان دشمنی کو غیر محسوس انداز میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کی دشمنی میں تبدیلی کرتا ہوا اپنا سفر طے کرتارہا۔باطل کا سب سے بڑا ہتھیا ر مسلمانوں کے ایمان وعقیدے اور روایا ت واقدار پر حملہ تھا کہ مسلمان،مسلمان رہتے ہوئے اپنے ایمان وعقائد،اپنی تابندہ روایات،اپنے اسلاف اور اپنی تاب ناک تاریخ سے بے گانہ ہوجائے۔
آج اگر باطل کی اس سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے طرزِ عمل پر غور کریں توصاف دکھائی دے گا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ مسلم اور غیر مسلم اقوام کی دشمنی کو اس سطح تک لے آیا ہے کہ غیر مسلم اپنی باقی ہر قسم کی دشمنیوں کو بھول کر اسلام اور مسلمان دشمنی ہی کو دشمنی سمجھ کر جی رہے ہیں،وہ دنیا میں اپنا ایک ہی دشمن تصور کرتے ہیںاو وہ ہے مسلمان،جس کی وجہ ان کی اسلام دشمنی ہے۔اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دوستی میں بھی یہ آستین کا خنجر ثابت ہوتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کو ناکام کرنے اور نقصان پہنچانے،انھیں دبانے اور کمزور کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور اگر بظاہر ایسا کوئی موقع موجود نہ بھی ہو تو موقع پیدا کرلیتے ہیں اور اس خود ساختہ مواقع سے اپنی دشمنی کے جذبات کو تسکین پہنچاتے ہیں اورایسے حالات پیدا کرتے ہیں جن سے تعلقات میں کشیدگی اور تناؤ پیدا ہو۔
بہر حال وقت نے اپنا سفر جاری رکھا حالات بدلے تو حالات کے مطابق تقاضے بھی بدلے۔ ضرورتیں بڑھیں تو سوچوں نے بھی ترقی کی۔نیزے بھالے اور تلوار کی جگہ بندوق اور توپ نے لے لی۔
سود:عالمی برتری کے منصوبے کی تکمیل کاذریعہ:
تھوڑا سا ماضی میں جھانگ کر دیکھیں تو واضح ہوگا کہ ظہورِ اسلام سے پہلے یہودیوں کی اقتصادی اور معاشی مضبوطی کی ایک اہم اور بڑی وجہ ان کا سودی کاروبار تھا۔ اس دور میں یہ واحد قوم تھی جو اس کاروبار کی اجارہ دار تھی۔آگے چل کراس سودی کاروباری کو انھوں نے اپنے عالمی برتری کے منصوبے کی تکمیل کا ذریعہ بنایااور مسلمانوں، مسلم حکومتوں اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کو جکڑنے کے لیے اس ذریعے کو ایک مکمل عالمی معاشی، مالی اور اقتصادی نظام بنانے کی منصوبہ بندی میں مصروف عمل ہوگئے۔
سودی اور سودی کاروباور اس کی بدلتی شکلیں:
(۱) ابتدائی اندازیہ تھا کہ ایک رقم قرض دی اور اس پر ایک مخصوص منافع رکھ کر رقم واپس ہوگئی۔
(۲) وقت کے ساتھ اس کاروبار کے کرنے والے یہودی ساہو کاروں نے اس کو وسعت دی اور امانت کے طور پر لوگوں کا سونا، چاندی اور درہم، دینار حفاظتی نقطۂ نظر سے جمع کرنے، کرانے اور رکھنے کا کام بھی شروع کرلیا،چنانچہ لوگ ایک مخصوص رقم ہفتہ وار، ماہانہ یا ایک طے شدہ وقت کے لیے طے کرکے اپنا مال، سونا، چاندی، سکے وغیرہ اِن یہودوں ساہو کاروں کے پاس رکھوانے لگے۔ لوگ جو کچھ ان کے پس رکھواتے اس کی رسید لے لیتے اور جب ضرورت پڑتی، رسید دکھا کر اپنی چیز واپس لے لیتے۔
(۳) پھر ان سود خور ساہو کاروں نے مزید آگے کی سوچی اور مختلف شہروں میںآپس میں ایک معاہدے کے تحت اس کاروبار کو ایک مشترکہ کاروبار کی شکل دی ۔اس طرح ایسے کاروباری لوگ،جو ایک شہر سے دوسرے شہر تجارت کے لیے جاتے تھے اور مال کی خریداری کے لیے رقم یا سونا، چاندی ساتھ لے جاتے تھے، اُن کے لیے اِن یہودی ساہوکاروںنے ایک کاغذ پر نوٹ یا چٹ کا طریقۂ کار بنادیا۔ کاروباری لوگ حسبِ ضرورت رقم جمع کراکے اس رقم کے مطابق ایک چٹ لے لیتے اور سفر میں رقم ساتھ اٹھائے اٹھائے پھرنے سے محفوظ ہوجاتے اور اپنے مطلوبہ شہر پہنچ کر وہاں کے ساہو کار کو وہ چٹ دے کر رقم یا سونا چاندی وصول کرلیتے۔یہ سہوکار اس کام کا معاوضہ وصول کرلیتے ،یوں وہ یعنی دوسروں کے مال اور کاروبار میںبغیر کسی محنت کے حصہ دار بن گئے۔
(۴) یہودی ساہوکار وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید طریقے کاروبار میں شامل کرتے گئے ۔ایک طریقہ یہ تھا کہ کوئی شخص اپنا روپیہ یا سونا ،چاندی ان کے پاس ایک سال کے لیے رکھتا تو یہ اس روپیہ،یا سونا،چاندی کو اپنے کاروبار میں سال بھر استعمال کرکے بھی منافع کماتے اور رکھوانے والے سے اس کے مال کی حفاظت کی مدمیں بھی خرچہ وصول کرتے رہتے ۔
(۵) جب یہ کاروبار اچھا خاصا چل پڑا اور لوگوں اور زمانے کے تقاضوں نے بھی ترقی کی تویہ سود خور مہاجن گھروں سے نکل کر دُکانوں میں منتقل ہوگئے اور مارکیٹ کی شکل میں کاروبار ہونے لگا ۔
(۶) زمانے نے مزید ترقی کی، کاروباروں کے انداز بدلے اور ان میں جدت آئی تو یہ سود خور بھی دُکانوں سے نکل کر دفتروں میں آبیٹھے اور دفتروں میںلوگوں کے باقاعدہ کھاتے کھل گئے، دفتروں میں کام کرنے کے لیے لوگ بھرتی کرلیے گئے،یوں زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ کاروبار بھی ترقی کرتا رہا اور یہود بھی مال دار اور خوش حال ہوتے چلے گئے۔
(۷) پھر اس کاروبار کو مزید وسعت اس طرح ملی کہ امرا اور وزرا کی چیزیں ان کے پاس گروی رکھی جانے لگیں۔ اس طرح یہ حکومتی عہدے دار بھی ان کے ممنون رہنے لگے اور اس طرح اِن یہودیوں کے تعلقات بھی وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے گئے اوران کا اثر ورسوخ حکومتی سطح تک پہنچ گیا۔
(۸) وقت نے ایک اور منزل طے کی تو یہ دفاتر مقامی بینک بنے۔ پہلے پہل انھوں نے شہری سطح پر معیشت پر قبضہ کیا اورشہروں کے تمام کاروباری لین دین بینکوں کے ذریعے ہونے لگے،پھر مقامی بینک کے بعد مرکزی بینک اور پھر عالمی بینک؛ لیکن اس ساری بھاگ دوڑ اور جدوجہد کے دوران نہ تو یہ اسلام کی دشمنی کو بھولے اور نہ مسلمانوں سے غافل رہے۔
یہودیوں کا مذہبی برتری کا خواب گزرتے وقت اور بدلتے حالات کے ساتھ اب ایک عالمی برتری کے جنون میں بدلنا اور ڈھلنا شروع ہوگیا تھا، ایک ایسی عالمی برتری جس میں مذہبی، اقتصادی، معاشی، سیاسی، سماجی، حکومتی کنٹرول اور قبضہ یہودیوں کے پاس اور ان کے ہاتھ میں ہو۔ لیکن اس تمام تر عالمی طاقت، قبضے اور کنٹرول کے تمام فوائد تو غیر مسلموں کے لیے ہوںمگر نقصانات سب کے سب مسلمان بھگتیں۔ مسلمانوں کو اس طرح پکڑا،جکڑ ا اور بے بس کردیا جائے کہ نہ صرف مسلمان من حیث القوم اپنے اسلامی مذہبی قوانین اوراصول وضوابط پر عمل نہ کرسکیں، بلکہ ان اسلامی مذہبی قوانین اوراصول وضوابط کے مقابلے میں عالمی شیطانی اور دجالی قوانین اور اصول وضوابط پر عمل کرنے پر مجبور کردیے جائیں۔اس کام کے لیے اس شیطانی قوت نے ہر قوم اور مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اس طرح ذہن سازی کی کہ ہر مذہب والے اسلام کو اپنے لیے خطرہ اور مسلمانوں کو اپنا دشمن جانیں۔ یہ صورتِ حال نہ صرف پوری دنیا کے اندر آج دیکھی اورسمجھی بھی جاسکتی ہے۔ افسوس بس اس بات کا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ دو صدیوں سے یہ صورت حال دیکھنے اور محسوس کرنے کے باوجود سمجھنے اور سنبھلنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
ہندوستان میں اسلامی حکومت کاقیام:
ہندوستان پر سب سے پہلے محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے حملہ کیا،وہ سندھ تک پہنچا، اسے باب الاسلام بنایا، مگر اپنی بے وقت موت کی وجہ سے وہ یہاں ایک مضبوط اسلامی حکومت قائم نہ کرسکا۔
اس کے بعد محمود غزنوی ؒنے یہاں اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی، مگر پنجاب کے کچھ علاقوں کو ہی فتح کرسکا اور ہندوستان کے اندر داخل ہونے سے قاصر رہا۔
شہاب الدین محمد غوریؒ وہ پہلا حکمران ہے، جس نے صحیح معنوں میں ہندوستان میںپہلی اسلامی ریاست قائم کی۔ اس نے پنجاب سے آگے بڑھ کرکئی علاقے فتح کیے،یہاں مساجد اور تبلیغی درسگاہیں تعمیر کیں،حکومتی امور وقوانین اور وہاںکے رسم ورواج میں اسلامی اصول وضوابط رائج کیے۔ ان کاموں سے فارغ ہوکرحکومت اپنے ایک غلام قطب الدین ایبکؒ کے حوالے کی اور خود واپس غزنی چلا گیا۔
قطب الدین ایبکؒ نے اس اسلامی سلطنت کو مزید وسعت دی اور فتح کے جھنڈے گاڑتا دہلی تک پہنچ گیا اور دہلی کو اسلامی حکومت کا دار الخلافہ بنالیا۔قطب الدین ایبکؒ کے بعد بھی بے شمار حکمران آئے۔
سولہویں صدی عیسوی کے آغاز میں یہاں لودھی خاندان حکمران تھا۔
لودھی خاندان کی حکمرانی کا خاتمہ مغل خاندان کے ہاتھوں ہوا۔
مغربی ترقی اور عالمی غلبے کی ابتدا :
دوسری طرف سولہویں صدی تک مغرب میں مادی ترقی بھی بے تحاشہ ہوچکی تھی ۔وہاں اندازِ حکمرانی میں بھی کافی تبدیلیاں آچکی تھیں، عوامی سوچ وفکر کے انداز بدل گئے تھے، صنعت کاری کی ابتدا ہو چکی تھی،غرضیکہ مغربی معاشرہ کافی حد تک تبدیل ہوچکا تھا۔وقت اپنی رفتار سے دوڑتارہا ، زمانہ حکومتوں کے تغیر وتبدل پر نگاہ رکھے بدلتا رہا ۔یہوداور ان کی قیادت میں باطل بھی اپنے عزائم کی تکمیل میں ہمہ تن مشغول رہا،اس کی نظر اب صرف نظریاتی اور ثقافتی یلغار کی طرف تھی،بظاہر وہ کسی قسم کی جنگ کے موڑ میں نہیں تھا۔
عالمی غلبے کی ابتدا باطل نے یورپ سے کی، کیوں کہ باطل اس بات کو اچھی طرح سمجھتا تھا کہ جب تک یورپ اور مغربی حکومتوں پر اس کا مکمل کنٹرول نہیں ہوگا اور یہ حکومتیں اس کی مرضی کے مطابق اس کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے اس کی معاون نہیں ہوں گی، اس وقت تک اس کے لیے اسلام اور مسلمانوں پر مکمل قابو پانا اورمسلمانوں کواسلام کی وجہ سے جو برتری حاصل ہے ،اس کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔باطل کی عیاری کی انتہا دیکھیے کہ یورپ پر کنٹرول کے منصوبے کو بھی اس نے عام نہیں ہونے دیا،بلکہ اس منصوبے پر بھی انتہائی خفیہ طریقے سے اور آہستہ آہستہ عمل جاری رکھا۔
اس وقت دنیا میں شخصی اور وراثتی حکومتوں کا دور تھااور خلیفہ، سلطان یا بادشاہ ہی تمام اختیارات کا مالک اور مرجع ہوتا تھا، تمام قوانین اس کی مرضی پسند کے تابع ہوتے تھے ، بڑے بڑے عہدے اس کی مرضی اور پسند ہی سے دیے اور لیے جاتے تھے۔ یہ طرزِ حکومت باطل کے مذموم منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں بہت بڑی رُکاوٹ تھا ۔باطل اس رُکاوٹ کو دور کرنے کے لیے دن رات سوچ بچار اور سازشوں کے جال بننے میں مصروف تھا۔اس کی کوشش تھی کہ کوئی ایسا نظام حکومت وضع کیا جائے جس میں اقتدار، اختیارات اور طاقت کسی ایک شخص کے پاس نہ رہیں،کوئی شخص مطلق العنان اور ہر اعتبار سے بااختیار نہ ہو۔
جمہوری نظام کی ابتدا:
سولہویں صدی کے آغاز میں یہودیوں نے باقاعدہ اپنی خفیہ سیاسی سماجی اور معاشی تنظیم کی بنیاد رکھی ۔سولہویں صدی کے آغاز میں ہی برطانیہ کی ملکہ الزبتھ اول کا انتقال ہوا اور اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ جیمز پنجم نے برطانیہ کا تخت سنبھالا،جو پہلے ہی سے یہودیوں کی تنظیم کا ممنون اور مقروض تھا۔یہ یہودیوں کی بہت بڑی کامیابی تھی ،کیونکہ برطانوی حکومت اب پوری طرح اُن کے قبضے میں تھی۔ یہاں انھوں نے اِس ایجنڈے پر کام شروع کردیا کہ حکومت، حکومتی اختیارات، اقتدار اور اقتدار سے حاصل ہونے والی طاقت کسی ایک شخص کے ہاتھ میں نہیں ہونی چاہیے۔چنانچہ انھوں نے بادشادہت کے متبادل ایک عوامی نمائندگی کا جمہوری نظام متعارف کرایا، ایک سے زیادہ نمائندوں کی اقتدار میں شراکت کا طریقۂ کار وضع کیا ،پھر ان تمام لوگوں میں سے یہی لوگ مل کر اکثریت کی بنیاد پر ایک حکومتی سربراہ کے انتخاب کا طریقہ کار سامنے لائے۔اس تمام جمہوری نظام کے پیچھے یہودی ساہوکاروں کی یہ سوچ کار فرما تھی کہ یہ عوامی نمائندے جب الیکشن لڑنے کے لیے میدان میں اتریں گے تو انتخابی مہم چلانے کے لیے سب سے اہم چیز ہوگی سرمایہ،چنانچہ ہم اپنی مرضی کے لوگوں پر سرمایہ کاری کریں گے اور جب وہ لوگ ہمارے ہی سرمائے سے الیکشن لڑیں گے، جیتیں گے اور حکومت بنائیںگے تو پھر یہ حکومت یقینا ہمارے منصوبوں اور مقاصد کی تکمیل میں ممد ومعاون ثابت ہوگی اورہمارے کاموں میں حکومتی وسائل بھی بروئے کار لائے گی،جس سے ہماری کامیابی کے امکانات مزید بڑھ جائیں گے۔خلاصہ یہ کہ اس جمہوریت کا آغاز برطانیہ میں کیا گیا۔
حکومت گر اور بادشاہ گر:
غور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ جمہوری نظام کے ذریعے یہودی ساہوکار ایک طرح سے حکومت گر اور بادشاہ گر بن گئے، جو بظاہرالیکشن لڑتے نہیں تھے۔مگرالیکشن انہی کے سرمائے سے لڑے جاتے تھے۔ دوسرے لفظوں میںیوں کہہ لیں کہ یہ بھی یہودی ساہوکاروں کاایک سرمایہ کاری پروجیکٹ تھا،جس کے ذریعے سرمایہ بھی ملتا اور بنتا تھا اور ساتھ ہی سیاسی اور سماجی معاملات بھی آگے بڑھتے اور اقتدارو حکومت میں براہِ راست شامل نہ ہونے کے باوجود اقتدار اور حکومت پر کنٹرول بھی انہی کاہوتا تھا۔
یہ ہے وہ جمہوریت اور جمہوری نظام، جس کے ذریعے آنے والے وقتوں میں بر صغیر پاک وہند اور ایشیائی مسلم ریاستوں اور ملکوں پر قبضہ کرنا تھا، جس کا بنیادی مقصد یہ تھاکہ اسلامی بادشاہتوں کو(جن کا حکومتی، معاشی، سماجی اور معاشرتی نظم، ثقافت، رسم و رواج اور سب سے بڑھ کر سوچ وفکر اسلامی تھی) اس جمہوری نظام کے تابع لایا جائے گا اوراسی جمہوری راستے سے اپنے اصل اسلام اور مسلمان دشمن منصوبے کی تکمیل کی طرف پیش قدمی کی جائے۔
مغل حکمرانی کاآغازاور عروج وزوال:
ہم پچھلے صفحات میں لکھ چکے ہیں کہ سولہویں صدی کے آغاز میں ہندوستان کے اندربہت بڑی تبدیلی یہ آئی کہ لودھی خاندان کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا اور مغل خاندان کا دورِ حکومت شروع ہوا ۔چنانچہ مغل تاج دارظہیر الدین بابر نے ہندوستان میں ایک عظیم الشان اسلامی حکومت و سلطنت کی بنیاد ڈالی۔یہ سلطنت اپنی شان وشوکت، وسعت ووسائل، آبادی اور کارناموں کی وجہ سے اسلام کی بڑی عالی شان سلطنتوں میں شمار ہوتی ہے۔ تقریبا ًپورا ہندوستان( پاکستان اور ارد گرد کے علاقے) اس اسلامی سلطنت میں شامل تھے۔ اورنگزیب عالم گیر کے دورِ حکومت تک یعنی تقریبا ًڈیڑھ صدی کا عرصہ مغل حکومت کے جوبن اور عروج کا دور تھا ۔ملک کے اندر امن، چین، سکون، عدل وانصاف، رعایا پروری اور خوش حالی کا دور دورہ تھا۔ مگر اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد جتنے بھی حکمران ہوئے وہ اس عظیم الشان اور طاقت ور سلطنت کو سنبھال نہ سکے اور یوں مغل خاندان اپنے دورِ عروج کے سفر کا اختتام کرتے ہوئے انتہائی زوال پذیری کا شکار ہوگیا۔
ایسٹ انڈیاکمپنی کاقیام اور مقاصد:
اورنگزیب عالمگیر ابھی حیات تھے کہ یہودی شہہ دماغوں کے تیار کردہ لوگوں پر مشتمل کچھ برطانوی تاجر، ہندوستان میں وارد ہوئے،وہ بظاہر تجارت کرنے کی غرض سے آئے تھے ،مگر واپسی سے پہلے بر صغیر ایشیا پاک وہند کی ایک کثیر آبادی کو جمہوریت کی راہ دکھا گئے،جس نے ان کے دل ودماغ کو اتنا متاثر کیا کہ پھر نسل در نسل اس کا اثر منتقل ہوتا اور مزید بڑھتا، پھلتا پھولتا اور پھیلتاچلاگیا۔
یہ قانونِ قدرت ہے کہ جب کبھی اچھائی کمزور پڑجاتی ہے تو برائی لازماً زور پکڑتی اور طاقت ور ہوجاتی ہے اور جب کبھی کوئی اچھائی مٹنے لگتی ہے تو برائی فورا ٓگے بڑھ کر اس کی خالی جگہ کو پر کرلیتی ہے۔اسی طرح جب حق کے محافظوں میں ضعف پیدا ہوجاتاہے تو موقع کی تاک میں بیٹھا باطل اُن کو دبوچ لیتاہے اور پتا اُس وقت چلتاہے جب ہر طرف سے محصور ہوچکے ہوتے ہیں اور ہاتھ پاؤں مارنے کے سوا کچھ نہیں کرپاتے ،پھڑ پھڑا تے ہیںمگر باطل کے چنگل سے نکل نہیں پاتے۔ برطانوی تاجر بظاہر تو مختلف علاقوں میں پھیل کر تجارت کا کام کرتے رہے، انھوں نے اپنی رہائش گاہیں بھی عام لوگوں سے ہٹ کر دُور اور فاصلوں پر قائم کر رکھی تھیں، بڑی بڑی کوٹھیاں اور قلعہ نما مکانات تعمیر کرلیے تھے، جنھیں وہ رہائش اور مال وغیرہ ذخیرہ کرنے کے علاوہ اپنے خفیہ اور مذموم مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔چنانچہ ایسے ہندو راجے، مہاراجے جن کو آگے چل کر اپنے اصل مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرناچاہتے تھے، اُن کے ساتھ انہی کوٹھیوں اور قلعوں میں ملاقاتیں کرتے۔ اورنگزیب عالمگیر کی زندگی میںاور دورِ حکومت تک یہ کام انتہائی خاموشی کے ساتھ اور خفیہ انداز میں جاری رہا، مگر جب اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد اقتدار نا اہل حکمرانوں کے ہاتھ میں آیاتو حکومت پر ان کی گرفت کمزور پڑنا شروع ہوئی اورحکومتی امور نیچے کی سطح پر امرا ،وزرا کے ہاتھوں میںآنے لگے تو ان برطانوی تاجروں نے بھی آہستہ آہستہ تجارتی کاروبار کو سمیٹنا شروع کردیا اور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔اُن کا طریقۂ کار یہ تھا کہ وہ خاموشی کے ساتھ،خفیہ طریقے سے حکومت کے اندر اہم عہدے داروں اور لوگوں کے ساتھ میل ملاپ اور تعلقات استوار کرنا شروع کردیتے ،انھیںتحفے تحائف دے کر اُن کا قرب حاصل کرتے ،اُنھیں اپنا ہم نوا بنانے کے لیے اُن پر دولت نچھاور کرتے ،تاکہ اُن کی سیاسی سرگرمیوں کی راہ میں کوئی مشکل اور رکاوٹ نہ ہو۔اس کے ساتھ ساتھ حکومت سے باہر اپنی سیاسی سماجی اور عسکری طاقت کو بڑھانا اور مضبوط کرنا شروع کردیا۔یوں بر صغیر پاک وہند میں برطانوی تجارتی کمپنی ایسٹ انڈیا کمپنی نے بر صغیر پاک وہند پر برطانوی حکومتی قبضے اور ر بذریعہ حکومت طاقت وسائل اور اختیارات پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔
زوال کی وجوہات:
اور اس زوال کی دو بنیادی وجوہات تھیں:
ایک: حکمرانوں کی نا اہلی، وزرا وامرا پر حد سے زیادہ انحصار، حکومتی امور سے لا تعلقی کی حد تک بے پروائی اور غفلت ،سہل پسندی وآرام طلبی میں مبتلا ہوجانا۔
دوسر ے:عمال حکومت بالخصوص شاہی خاندان کے افراد کی عیش ومستی۔
آپ پڑھ چکے ہیں کہ یہودی ساہوکاروں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے دنیا میں موجود طریقۂ حکمرانی کو بدل ڈالا اورشخصی حکمرانی کی جگہ عوامی نمائندگی اور جمہوریت کا طریقۂ حکمرانی اور طرزِ حکومت متعارف کرایا،سب سے پہلے اس جمہوری نظام کو برطانیہ میں قائم کرایا،یہودی ساہوکاروں نے ملک کے عام لوگوں کو اپنی مالی معاونت کے ذریعے حکومتی ایوانوں تک پہنچایا۔اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ غریب اور پسے ہوئے طبقات کے ہمدرد وخیرخواہ تھے ،بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ موروثی اور جدی پشتی بادشاہوں کی نسبت ان عام لوگوں کو گرفت میںرکھنا آسان کام تھا ۔یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ جب مغل خاندان کے آخری ذہین ،سمجھ دار، بہادر وشجاع، حکومتی اور جنگی امور کے ماہر بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کا انتقال ہواتویہ وہی دور تھا جب برطانیہ میںیہودی جمہوریت کی بنیاد رکھی جاچکی تھی۔’’ خرید و،لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘کی نہج پر ذہن سازی کا کام شروع ہوچکا تھا۔
مغرب کی اصل ترقی:
مغربی ممالک اس وقت ترقی کی منزلیں طے کر رہے تھے،مادی ترقی کے علاوہ اُن کی سب سے بڑی ترقی یہ تھی کہ اُن کامنصوبہ شرمندۂ تعبیر ہونے جارہا تھا اور نظر آرہا تھا کہ خاکم بدہن آنے والے ادوار میں غیر مسلم غالب اور مسلم مغلوب ، بے بس،مجبور اور مقروض ہوجائیں گے۔یہ تھی باطل کی اصل ترقی، مگر باطل کی یہ اصل ترقی اتنی خاموش اور غیر محسوس انداز کے ساتھ اور بے شمار مادی ترقیوں میں لپٹی اور چھپی ہوئی تھی کہ اس کا دیکھنا مشکل ہوگیا اور اُس وقت کی غفلت یا صرفِ نظر آنے والے وقت کا رونا بن گیا، جب مسلم معاشرہ اپنے تاب ناک ماضی سے باغی،اپنی مقدس روایات سوے بے گانہ اورمغرب و یورپ کا نمونہ بن گیا۔یہ ہے تو ماضی کاآئینہ مگر اس آئینے میں ہمیں اپنا حال دیکھنے کی ضرورت ہے!
عالمی قبضے اور غلبے کے سفر کا آغاز:
وقت کے ساتھ ساتھ حق وباطل اپنے اپنے سفر کو جاری رکھے ہوئے تھے۔ باطل وقت سے آگے دیکھنے، سمجھنے اور آنے والے دور اور زمانے کے مطابق نئی نئی سوچیں اور نئے نئے انداز اور طریقے اختیار کررہاتھا۔یہودی ساہوکاروں کے نئے اندازِ حکمرانی سے ملکوں کے ملک ’’سیراب‘‘ہورہے تھے اوراس سے وہ جو فوائد اور مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے وہ بھی حسبِ منشا ظاہر ہونا اور ملنا شروع ہوگئے تھے۔ جمہوریت کا پوداآہستہ آہستہ انتہائی خفیہ طریقے اور خاموشی کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا تھا۔ عالمی نسلی، مذہبی، اقتصادی، معاشی قبضے اور غلبے کے سفر کا آغاز ہو چکا تھا۔
تگ ودَو کے دو بنیادی مقاصد:
اس ساری تگ ودَو کے دو بنیادی مقاصد تھے:
اوّل:فلسطین ،یروشلم اور جزیرۃ العرب پر مکمل غلبہ اور قبضہ۔
دوم:جمہوری نظام کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کی من حیث القوم برتری کا خاتمہ اور اسلام اور مسلمانوں پر ایسا غلبہ جس کے ذریعے اسلام صرف زبانوں اور کتابوں میں ،جبکہ مسلمان کی مسلمانی صرف زبان اور نام کی حد تک رہ جائے اور وہ مکمل طور پرباطل کے قوانین، اصولوں اور ضابطوں کے تابع ہوکرنہ صرف زندگی گزارے،بلکہ اِس پر فخر بھی کرے۔
افواہ سازی:یہودیوں کاآزمودہ ہتھیار:
نظریاتی محاذپر مسلمان کو کھوکھلاکرنا یہود کا آزمودہ ہتھیار تھا ،سب سے پہلے یہودی النسل منافق عبداللہ بن سبانے مسلمانوں کے خلاف اِس ہتھیار کو استعمال کیا،تاریخ بتاتی ہے کہ اُس نے مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کے لیے کسی نیزے بھالے، تلوار اور توپ، ٹینک کا استعمال نہیں کیا تھا، نہ خود سامنے آکر مقابلہ کیا تھا ،بلکہ اُس نے افواہ سازی کے ذریعے ایسے منظم اور مربوط طریقے کے ساتھ، ہر طرف، ہر جگہ اپنے ساتھیوں کے ذریعے افواہ سازی کا عمل جاری کیا کہ سادہ لوح مسلمانوںکا ذہن ان افواہوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، لوگوں کے ذہنوں میں انتشار اور خلفشار پیدا ہوگیا،جس نے وہ کچھ کر دکھایا جو شایدمسلح جنگ اوردوبدو لڑائی سے نہ ہوسکتا تھا۔ دانستہ یا دانستہ اپنے ہی آپس میں دست وگریباں ہوگئے، ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نکل آئیں اور ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیوں کی ایسی تیز وتند اور تلخ لہر اٹھی جو آج بھی امت کے اتفاق واتحاد کے راستے کی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
یہود نے ہر دور میں یہی ہتھیار استعمال کیا اوراس ہتھیار کو جدید تقاضوں کے مطابق جدید تر بناتے گئے،خباری صفحات، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا، موبائل، انٹرنیٹ، سوشل وڈیجیٹل میڈیا وغیرہ اسی ذہن سازی کے ہتھیاروں کی مختلف جدید شکلیں ہیں۔
سلطنتِ عثمانیہ کے آخری دور میںیہودی ساہوکاروں نے اس ہتھیارکے استعمال کا تجربہ کیا ،جو انتہائی کامیاب رہا۔اُن کا کام صرف اور صرف افواہ سازی تھا اور وہ لوگوں سے تواتر کے ساتھ اِس طرح کی باتیں کرتے تھے کہ :’’زمانہ بدل گیاہے،اب خلافت کا ظالمانہ دور نہیں رہا ،لوگوں کو اپنے حقوق کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ زمانہ ترقی کی طرف جارہاہے، ہمیں بھی ترقی پسند حکمران آگے لانے چاہئیں۔‘‘
عوام الناس کے اندر یہ افواہ سازی جاری کی گئی اور اشرافیہ میں اسی سوچ کو دوسری طرح استعمال کیا گیا۔ مثلاً:’’روشن خیال، ترقی پسند لوگوں کی اپنی ایک تنظیم ہونی چاہیے، جو حکومتِ وقت اور اس کے غاصبانہ قبضے کے خلاف آواز بلند کرسکے، عوام کی بہتری ترقی اور خوش حالی کے لیے کام کرسکے۔‘‘ اس افواہ سازی کا نتیجہ یہ نکلاکہ ملک میں ہر جگہ عوامی تنظیمیں وجود میں آنے لگیں، عوام مسلمان حکمرانوں کے طرزِ حکومت پر اعترضات اٹھانے لگے ،جس کے نتیجے میں ملک اور عوام کے اندر انتشار کی صورت حال پیدا ہونے لگی۔
ترکی جمہوریت کی راہ پر:
دوسری طرف مصطفی کمال پاشاکو، دامے درمے سخنے تعاون کے ذریعے جدید جمہوری طرزِ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے تیار کیا جارہا تھا۔ انجام کار خلافت اور اسلامی طرزِ حکومت رخصت ہوا، عالمی جمہوری نظام ترکی میں رائج ہوگیا۔ برطانوی طرزِ حکومت کی طرح وقتی طور پہ خلیفہ کو بے اختیار کرکے صرف نام کا خلیفہ رہنے دیا گیا اور حکومت کے تمام اختیارات جمہوری صدر مصطفی کمال پاشا کو دے دیے گئے۔
ترکی میں ’’انقلاب‘‘ برپا کرنے اور اسلامی طرزِ حکومت کی جگہ جمہوری طرزِ حکومت قائم کرنے کے بعد، یہودی ساہوکاروں کی طرف سے جمہوری حکومت کو مضبوط اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے مختلف قسم کے ترقیاتی منصوبوں کی مدمیں امداد کے نام پر فنڈز جاری کیے گئے اور ان فنڈز کی آڑ میں بچے کھچے اسلامی کلچر اور رسم ورواج کونام نہاد ترقی پسند کلچرمیں تبدیل کرنے کا کام کرایا گیا اور یہ تمام تر عمل باطل نے خود سامنے آئے بغیر اپنے ہم نوا حکمران کے ذریعے کروایا۔ برطانوی حکومت کی طرح اب ترکی حکومت بھی مکمل اُن کے قابو میں تھی، یہودی تنظیم نے اپنے کلب کھول لیے تھے جن کا کام دینی اعتبار سے کمزور لوگوں کی جمہوریت کے حق میں اور خلیفہ وخلافت کے خلاف ذہن سازی کرناتھا۔
عالمی جمہوری نظام اور غیر مسلم ممالک:
اس مقام پر یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ غیر مسلم ممالک میں اس عالمی جمہوری نظام نے اتنی تباہی نہیں پھیلائی،جتنی مسلم ممالک میں ،کیونکہ اُن ممالک میں بسنے والے لوگ اور معاشرہ پہلے ہی مذہب بے زاری کا شکار اور آزاد خیالی کا رسیا تھا ۔اس کے برعکس مسلمان ممالک اور مسلم معاشروں کے اندر گمراہی اور بے راہ روی کو فروغ دینے کے لیے اُسے کافی محنت کرنی پڑی۔
جمہوری نظام اوریہودکا جاری کردہ ہدایت نامہ:
ترکی کی جمہوری حکومت کے پچاس پچپن برس گزرنے کے بعد جمہوریت میں کچھ کمزوری آنا شروع ہوئی تو وہاں سے حالات پر قابو پانے اور کنٹرول قائم رکھنے کے لیے ترکی میں کام کرنے والی تنظیموں کو باقاعدہ ایک ہدایت نامہ جاری کیا گیا، جس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔
(۱) اسلامی سوچ وفکر رکھنے والی با اثر شخصیات، تنظیموں اور جماعتوں کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلانا،عوام میں ان کے خلاف ابہام پیدا کرنا، افواہ سازی کے ذریعے خود اِن اسلام پسند افراد اور جماعتوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینا،تاکہ یہ کبھی ایک دوسرے کے قریب نہ آسکیں۔
(۲) ۔ان کو فرسودہ سوچ رکھنے والے، شخصی آزادی خاص طور پر عورتوں کی آزادی پر پابندی لگانے والے،جاہل،بیک ورڈ اور ظالم مشہور کرنا۔
(۳) نوجوانوںاور بااثر افراد کوزیادہ سے زیادہ اپنے کلبوں کی طرف راغب کرنا، ممبر بنانا اور رفاہی کاموں کی آڑ میں اپنے ساتھ جوڑے رکھنا۔
(۴) کلبوں کی تعداد بڑھانا اور خدمت ِ خلق کے نام پر منصبوبے بنانا۔
(۵) یہودی سوچ وفکر کو جلدقبول کرلینے والے تعلیم یافتہ لوگوں کی تلاش اور ان کی مالی مددکرنا،ان کے ذریعے ایسے تعلیمی اداروں کا قیام جہاں نوجوانوں کو ترقی پسندی اور جدیدیت کی راہ پراسلام سے برگشتہ کیاجائے۔
(۶) خدمت وترقی کی آڑ میںاپنے اصل مقاصد کو ہمیشہ پوشیدہ رکھنا۔ اِن منصوبوں کے خلاف دانستہ یا نادانستہ رکاوٹ بننے والوں کی روک تھام اور سد باب کرنااور معاونت کرنے والے افراد اور اداروں کی بھر پور مالی امدادکرنا۔
اے مسلم!ہوشیار!!
یہ ہے تو ماضی کا آئینہ ،مگر اس میں حال کی تصویر بھی دیکھی جاسکتی ہے ،کیونکہ باطل تاحال نہ تو اپنی ساڑھے چودہ سو برس پرانی شکست کو بھولا ہے اور نہ ہی اسلام اور مسلمانوں کی مذہبی برتری کو شکست دینے کے منصوبے سے دست بردار ہواہے،وہ اس حوالے سے مسلسل جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔کسی بھی ملک کے عوام کی ترقی وخوش حالی، مضبوطی واستحکام کے لیے چند باتیں انتہائی اہم اور لازمی ہوتی ہیں، جن کے بغیر نہ تو کوئی ملک ترقی اور استحکام حاصل کرسکتاہے اور نہ ہی کوئی ملک وقوم خوش حالی اور امن وامان پاسکتے ہیں؛ اور وہ معاملات ہیں: سیاسی، حکومتی، معاشی اور معاشرتی نظام ۔جب تک یہ چاروں بیرونی اثرات سے آزاد نہیں ہوں گے تب تک کوئی بھی ملک وقوم ترقی واستحکام حاصل نہیںکر سکتے۔ باطل نے اسلام اور مسلمانوں کی برتری ختم کرنے اور اپنی پرانی شکست کا بدلہ لینے ،نیز خود کو برتر ثابت کرنے کے لیے گزشتہ ساڑھے چودہ سو برسوں میںجوکچھ کیاہے ،یا جو کچھ کرنے جارہاہے اُس کی ایک دھندلی سی تصویر آپ کو دِکھائی گئی ہے تاکہ آپ کواندازہ ہو کہ باطل نے کیا کیا اور کیسے کیسے خطرناک اور مذموم منصبوبے تیار کیے ہیں؟کس طرح ظالمانہ سوچ وفکر اورتعمیر کے نام پر تخریبی انداز کے ساتھ ان پر عمل کیا اور ان کو پایہ تکمیل تک پہنچایاہے؟ کس طرح دنیا پر اپنے عالمی غلبے اور قبضے کے لیے مختلف ملکوں کے درمیان افواہ سازی سے مخالفانہ سوچوں کو پروان چڑھایاہے؟کس طرح مختلف ملکوں کے اندر فواہ سازی کے ذریعے اپنی مرضی کا ماحول اور حالات پیدا کرکے فوائد حاصل کیے اور ان ملکوں اور وہاں کے عوام کو تباہی وبربادی کے گڑھوں میں ڈھکیلا؟ اسی افواہ سازی کے ہتھیار کے ذریعے ان کو ایک دوسرے کے خلاف جنگوں پر آمادہ کیا، پھر ِان جنگوں میں اپنے سرمائے سے چلنے والی اسلحہ ساز فیکٹریوں کا اسلحہ فروخت کرکے متحارب فریقین سے مال کمایا، ان ملکوں کو پہلے اپنا مقروض بنایا اور پھر بے بس اور مجبور بنایا ۔یہ سلسلہ رُکانہیں، بلکہ اب ایک نئے طرز پر جاری ہے جسے ’’جنریشن وار فیئر‘‘کانام دیا گیا ہے۔
ففتھ جنریشن وار فیئرکیاہے؟
جو چیز تقریباً دس بیس سال بعد آئے اسے’’ جنریشن‘‘ کہتے ہیں۔ جنریشن آف ماڈرن وارفئیر کی تھیوری80کی دہائی میں امریکی تجزیہ کاروں نے ایجاد کی، جن میں امریکا کے بائیں بازو کے سپورٹر اور دفاعی تجزیہ کار ولیم ایس لینڈر کا نام سرفہرست ہے۔ انہوں نے جنگوں کو دیکھ کر اس تبدیلی کو مختلف جنریشنز میں تقسیم کیا۔اس تھیوری کے مطابق یہ معرکہ پانچویں مرحلے’’ففتھ جنریشن وار‘‘میں داخل ہوچکاہے۔ ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کی اصطلاح ڈیوڈ ایکس نے2009میں امریکی میگزین وائرڈ پر اپنے ایک کالم میںاستعمال کی۔’’ ففتھ جنریشن وار‘‘ کی سادہ الفاظ میں تعریف یہ ہے :وہ جنگ جس میں پوری قوم شریک ہوتی ہے، اس جنگ میں دشمن اپنی ’ہارڈ پاور‘ کے بجائے ’’سافٹ پاورز‘ ‘کو استعمال کرتا ہے۔اس کے بنیادی ہتھیار جہاز، ٹینک اور میزائل وغیرہ نہیں بلکہ سفارت کاری، پراکسیز، ٹی وی، ریڈیو، اخبار، سوشل وڈیجیٹل میڈیا، فلم اور معیشت وغیرہ ہیں۔ یہ جنگ زمین پر نہیں، بلکہ ذہنوں میں لڑی جاتی ہے۔اس جنگ میں انسانوں کو نہیں، بلکہ ان کے ذہنوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس جنگ میں فوجیں بھیجنے کے بجائے زیرِنشانہ ملک کے شہریوں کو اپنی ریاست اور فوج کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔
ماں دھرتی اور اس کے غیور محافظ:
ریاست کی مثال ماں کی طرح اور فوج کی مثال اُن غیوربیٹوں کی طرح ہے جو اپنی جان پر کھیل کرماں کی حفاظت کرے۔
کامن سینس کی بات ہے کہ جو بیٹے اپنی ماں یعنی ریاست کے قوانین کااحترام نہ کریں،اُس کے وقار کا تحفظ نہ کریں،اس کی املاک کو نقصان پہنچائیں اور اس کے خلاف آلہ کار کے طور پر استعمال ہوں کیاانھیں ماں کا بیٹا کہاجاسکتاہے؟
پھر نافرمانی کی انتہا یہ ہو کہ خود تو ماںکو راحت پہنچانے کی کوشش نہ کی اور اسے مسلسل ستایا،ڈرایا،دھمکایا،نقصان پہنچایاہی،جرم درجرم یہ کہ جو فرماں بردار بیٹے اپنے آرام کو قربان کرکے،اپنی خواہشات کا خون کرکے،اپنی ضروریات کی پروا کیے بغیر،اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر،زمانے کے سردو گرم کی پروا،کیے بغیر،ماں کی عزت وناموس کے تحفظ کے لیے دِن رات مصروفِ عمل ہوںالٹا اُن کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا،افواہ سازی کا حصہ بن گئے،منفی تبصرے کرنے لگے،نفرتوں کے پرچارک بن گئے،دشمن کے سامنے اپنی ہی ماں دھرتی کے غیور محافظوں کی عزت پامال کرنے لگ گئے؛تو کیاایسے بیٹے بیٹے کہلانے کے مستحق ہیں؟
ففتھ جنریش وار کا یہی ہدف ہے کہ ہم اپنی ماں دھرتی اور اُس کے غیور محافظ سپوتوں کے دشمن بن جائیں،اُن کے خلاف منفی بیان بازی کریں،اشتعال انگیزی پھیلائیں،ملکی املاک کو نقصان پہنچائیں،دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کے بجائے اُلٹا اپنی ہی فوج کو ہدفِ تنقید بنائیں جو حقیقت میں ہماری،آپ کی محافظ ہے۔ اسی فوج کی وجہ سے ہمارا ملک محفوظ ہے اور ملک محفوظ ہے تو ہم بھی محفوظ ہیں۔ اپنی فوج کو کمزور کرنا اپنے ہی پیروں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے۔ جو ناہنجار وقتی اشتعال انگیزی میں ریاست اور فوج کے خلاف نفرت انگیزی کرتے اور گز گز بھر زبانیں نکال کر ہفوات بَکتے ہیں وہ دشمن کے آلہ کار اور ففتھ جنریش وارمیں دشمن کے حامی ومددگار ہیں۔ہمیں اپنے اندراحساس کواجاگر اور عوام وخواص میں اس بات کا شعور بیدار کرنا چاہیے۔درخت کو بیرونی قوت اتنا نقصان نہیں پہنچاسکتی،جتنا خود اُس کے اندر لگنے والی دیمک اُسے نقصان پہنچاتی ہے۔
ہمارا فریضہ:
علما،مشائخ،اطبا،ڈاکٹرز،اساتذہ،تاجروں،حکمرانوں،سیاست دانوں، روحانی پیشواؤں اور معاشرے کے دوسرے بااثر طبقات کا بالخصوص اور عوا م کابالعموم اِن حالات میں فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقۂ اثر میں:
اِس سازش کو بے نقاب کریں،اِس رجحان کی حوصلہ شکنی کریں،اِس کے تباہ کُن نتائج سے اپنے متعلقین کو آگاہ کریں،ماضی کے آئینے میں حال کی تصویر دِکھائیں کہ وقتی اُبال اور اشتعال میں بلاسوچے سمجھے کی جانے والی باتوں،داغے جانے والے بیانات اور ردعمل کاکتنا بھیانک نقصان ہوتاہے،تاکہ دانستہ یا نادانستہ اِس پاک دھرتی کا کوئی پیر وجواں،مرد عورت،بچہ بوڑھا،تعلیم یافتہ یااَن پڑھ شہری یادیہاتی اِس ففقھ جنریشن وار کا حصہ نہ بنے۔
یاد رکھیے! ہم ریاست سے ہیں،ریاست ہے تو ہم ہیں۔ہماری بقا اپنی افواج کی بقا سے وابستہ ہے ،ہمارے محافظ ہیں تو ہم ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی دھرتی اور افواج کا حقیقی خیر خواہ بنائے۔آمین!۔
وما توفیقی إلاباللّٰہ
Reply to Comment