انفرادیت کیا ہے؟
ہم دیکھتے ہیں جب
کہیں موت مرگ ہوتی ہے توخواتین روتی اور صدمہ کا اظہار کرتی ہیں۔ تاہم سب لوگ ایک
جیسے دکھ اور شدت کے ساتھ نہیں روتے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس لیے کہ جب کوئی شخص
روتا یا دکھی ہوتا ہے تو اس کے پس منظر میں اس کی ذاتی تاریخ اور حالات و واقعات
ہوتے ہیں۔ جسے ہومیوپیتھی کی زبان میں اثر پذیری (Susceptibility)
کہا جاتا ہے۔ ہومیوپیتھی میں اس
لفظ کی بہت اہمیت ہے۔اسی بنیاد پر
یہ
علاج نظریہ انفرادیت پر قائم ہے۔ اس نظریہ کے مطابق ایک ہی مرض میں مبتلامریض اپنی
ذاتی حیثیت میں الگ الگ شدت اور کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ لہذا ان کا علاج بھی
انفرادی حیثیت سے کیا جانا چاہیے (اور کیا جاتا ہے)۔ ہومیوپیتھی علاج میں سب کو
ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی جو غلط روایت چل نکلی ہے اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
یاد رہے کسی بھی سسٹم کی بنیاد اس کا نظریہ ہوتا ہے۔ نظریہ جتنا قوی ہو گا وہ سسٹم
اسی قدر دیرپا ہو گا اور زمانے کے گرم وسرد سے محفوظ رہے گا۔ ماضی میں امریکہ میں
ہومیوپیتھک علاج کو ایلوپیتھک طریقہ سے چلانے کی کوشش کی گئی جس کا ہومیوپیتھی کو
ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ اور ایک وقت آیا کہ امریکہ میں ہومیوپیتھ معالج کو
تلاش کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ خال خال نظر آتے تھے۔
یہ کہنا کہ زمانہ
تر قی کر گیا ہے اس حوالہ سے کچھ معنی نہیں رکھتا کہ زمانہ تو روزِ ازل سے ترقی کر
رہا ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ سوال یہ ہے آیا ہم لوگ کتنی ترقی کر چکے ہیں؟
ہومیوپیتھی کی ترقی کی راہ میں ہزار رکاوٹ سہی لیکن میں سمجھتا ہوں سب سے بڑی
رکاوٹ تو خود ہومیوپیتھس ہیں۔
جب بھی ہومیوپیتھی
کی بات ہوتی ہے خود ہماری کمیونٹی سے اعتراض اٹھتا ہے کہ اس میں ریسرچ نہیں ہو
رہی۔ اور کچھ لوگ ہانیمن کا نام لے کر لکیر کے فقیر بنے بیٹھے ہیں۔ دنیا بدکل چکی
ہے۔ کوانٹم اور نینو ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔ سائنس بہت ترقی کر چکی ہے۔
بظاہر یہ نعرہ بڑا
خوشنما لگتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو ریسرچ کےمعیار تک پہنچنے سے پہلےبہت سے
مراحل آتے ہیں۔بہت سے پل کراس پڑنے پڑتے ہیں۔ کیا ہم نے خود کو اس کے لیے تیار کیا
ہے؟
کیا ہم ہومیوپیتھی
کے بنیادوں اصولوں کو سمجھ چکے اور اپنی روزمرہ پرکٹس میں استعمال کر چکے ہیں؟ کیا
ہم مطالعہ کا رحجان رکھتے ہیں؟
میں سمجھتا ہوں ایک
عام ہومیوپیتھ کے لیے ضروری ہے کہ اپنا کلینک کامیابی سے چلانے کے لیے ہومیوپیتھی
کو سیکھے۔ ریسرچ کا کام ریسرچ سکالرز پر چھوڑ دے۔ہر ہما شما ریسرچ سکالر نہیں بن
سکتا۔ یہ بہت بعد کا کام ہے۔
اگر ہم اپنا کلینک
ہی نہ چلا سکیں اور گلہ ریسرچ نہ ہونے کا کرتا رہیں تو اس بات میں کوئی وزن
نہ ہو گا۔
اپنی پریکٹس پر
دھیان دیں اور ہومیوپیتھک اصولوں کی پابندی کریں۔ آپ مایوس نہیں ہوں گے۔
بات گو ذرا سی ہے،
بات عمر بھر کی ہے۔
Natural Cure & Training Center